راجہ عمران جی کے نیوز
باغ ،انجمن تاجران ہاڑی گہل کے سابق صدر آصف چغتائی نے کہا ہے کہ پروفیسر انور کے قتل میں 8افراد ملوث ہیں جن سے سازش کے تحت تفتیش نہیں کی جا رہی،پروفیسر انور کے قتل سے ہمارے خاندان کا کوئی تعلق نہیں ، ہم نے مستغیث مقدمہ کو یہ آفر کیا کہ ہم مسجد میں بیٹھ کر حلفاََ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں یا مستغیث مقدمہ ہی حلفاََ مسجد میں بیٹھ کر یہ کہہ دے کہ ہمارے خاندان کا کوئی بھی فرد اس میں ملوث ہے تو ہم اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں ،کاشان فارض ، شیرازایوب ، فارض صادق ، ناصر صادق، عرفان طارس، شاہد مصطفی اس قتل میں ملوث ہیں انہیں شامل تفتیش کیا جائے ،SPموسیٰ اورانکے خاندان کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ،4تفتیشی ٹیموں نے ہمیں بے گناہ قرار دیا ہے ،پروفیسر انور کے قاتلوں نے رانا سرفراز کی بغلوں میں پناہ لے رکھی ہے،نثار شائق ،حاجی افراہیم ہم پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگانا بند کر دے ،صوبیدار منظور کا بیٹا تفتیشی ٹیم میں شامل تھا جو ہمارے نوجوانوں کو دھمکاتا رہا کہ قتل قبول کر لو اور شیراز ایوب بھی ذاتی دشمنی کی بنیاد پر بے بنیاد الزامات لگا رہا ہے ،کوئی شخص دفاعی روڈ بند نہیں کر سکتا ،ہم نے بہت صبر کیا ہے اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ،بدنام زمانہ انسپکٹر اختر نے تفتیش کے نام پر ہمارے نوجوانوں پر بے پناہ تشدد کیا اور انہیں کہتے رہے کہ قتل قبول کرو تمہیں مستغیث پارٹی سے پیسے لے کر دونگا ،ان خیالا ت کا اظہار انہو ں نے یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر انکے ہمراہ حاجی افتخار مغل ،صوبیدار رحیم ،ساجد بیگ ،ضمیر بیگ ،عمران ،سردار اسلم ،سردار زاہد ،حاجی محمد خان ،سردارذہین اور دیگر بھی موجود تھے،انہو ں نے کہا کہ پروفیسر انور قتل کیس میں سیاست کرنے والوں کی آئے روز میڈیا پر با عزت خاندان پر کیچڑ اچھالا جانے لگا۔ چیف ملزمان اور موقع پر موجود ملزمان خود کو بچانے کے لیے بے بنیاد الزامات لگانے لگے۔ 08مئی 2017کو صوبیدار انور قتل ہوئے جن کے قتل کی اطلاع سے پہلے ہی مرحوم کا بھائی رانا سرفراز نا معلوم خودکشی کرنے والے شخص کی لاش تلاش کرتا رہا جس کے گواہان موجود ہیں۔ مستغیث پارٹی اور پریس کانفرنس کرنے والے لوگوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ رضا خان موقع پر بریفنگ دے رہا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے شروع دن سے ہی تفتیش میں رکاوٹ نہیں ڈالی اور جو بھی ہمارے علم میں تھا پولیس سے تعاون کرتے ہوئے بتایا۔ ہمارے علم کے مطابق ایس ایچ او مہتمم تھانہ باغ (وقت) کو ناصرسلطان ولد صادق برآلہ صورت موقع اطلاع دی کہ جائے وقوعہ پر کوئی زخمی پڑا ہے جو آج مستغیث پارٹی کے ساتھ مل کر ہمارے خاندان پر کیچڑ اچھال رہا ہے ۔ اس معاملہ میں ایس ایس پی موسٰی خان کا کسی قسم کا کردار نہ ہے بلکہ ذاتی رنجشوں کی وجہ سے ان کی بے داغ سروس کو داغدار کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے اور ان کے بھائیوں نے پولیس اور ورثاء کو وہی بات بتائی جو ان کے علم میں آئی اور جسے کہ کسی بھی معاملہ /حادثہ ہونے کے بعد قیاس آرائیاں یا مفروضہ جات بنتے ہیں ایسے ہی تار کے ٹوٹنے ، ٹکر لگنے یا کسی کے مارنے بارے مفروضہ تھا اور کسی کی ذاتی رائے کو بعد از ثبوت ہی ریکارڈ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے ۔ جیسا کہ مستغیث مقدمہ کا لاش دیکھنے کے بعد اپنا مفروضہ تھا کہ یہ حادثہ ہے اور ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہ ہے جبکہ ایس ایچ او وقت حسن وزیر آفریدی نے دونوں لوگوں کی بات کو رد کرتے ہوئے پورسٹمارٹم کے لیے لاش کو ہسپتال بھجوایا۔ جہاں تک فون کالز اور نمبر بند کرنے کی بات ہے تو جو کالز ہسٹری اور کالز ڈیٹا JITجس کی سربراہی بدنام زمانہ انسپکٹر راجہ اختر نامی کر رہا تھا نے دیا وہ غیر تصدیق شدہ اور ٹمپرڈ تھا ۔ جبکہ PTAکا تصدیق شدہ کال ڈیٹا حقیقت پر مبنی تھااور موبائل کسی بھی شخص کا ذاتی ہوتا ہے وہ جب چاہے بند کرے جب چاہے آن کرے اس پر کسی پر الزام لگانا انتہائی گھٹیا پن کی علامت ہے ۔ جب جائے وقوع پر لیاقت انور نامی شخص گیا تو موقع پر پولیس نے رضا خان کو بلایا جنہوں نے وہی بتایا جو ان کے علم میں تھا۔ اس سے پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے خاندان نے تفتیش میں بھرپور تعاون کیا جس کا ذکر بار بار مستغیث پارٹی کر رہی ہے کہ ان سے تفتیش نہ ہوئی ہے ۔ جب کہ خود بھی اظہار کر رہے ہیں کہ یہی لوگ پولیس کو بریفنگ دے رہے ہیں۔ ان کی کس بات کو تسلیم کیا جائے؟ وقاص خالد کی جو کہ بے گناہ تھا اور بازار میں موجود تھا جس کے گواہان موجود ہیں اور ضمانت پر تھا تو کیونکر گرفتار کیا جا سکتا تھا؟سب سے پہلے SHOوقت حسن آفریدی اور DSPشوکت مرز اکی غیر جانبدار تفتیش میں ہم بے گناہ پائے گئے جس پر مستغیث پارٹی کو اطمینان نہ ہوا تو انہوں نے ڈی آئی جی پونچھ سے جے آئی ٹی بنوائی جس میں پونچھ ریجن کے مایہ ناز اور ماہر تفتیشی آفیسران انسپکٹر اکمل شریف، انسپکٹر سردار اعجاز وغیرہ شامل تھے جنہوں نے تفتیش کی اور بے گناہ پایا۔ پھر بھی مستغیث پارٹی کو اپنی پسند کے نتائج حاصل نہ ہوئے۔ تو وزیر اعظم اور آئی جی وقت سے تبدیلی تفتیش کا حکم جاری کروائے ہوئے اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے بد نام زمانہ انسپکٹر راجہ اختر جو کہ خود کشی کو قتل قرار دینے میں ماہر تھا اور جس پر اکثر و بیشتر شراب نوشی کے الزام لگتے ہیں پر مشتمل ٹیم بنوائی جنہوں نے پہلے محسن اور اخلاق عرف ہاڑو کو قاتل قرار دیا اور اسمبلی ہال کے سامنے محسن قاتل ہاڑو قاتل کو پھانسی دو کے نعروے لگوائے اور بعد ازاں حبس بے جا کا دعویٰ ہونے پر عدالت العالیہ میں بے گناہ ہونے کا اقرار کرتے ہوئے مقدمہ سے فارغ کر دیا ۔ اور محسن کو چشم دید گواہ بنانے کے لے تشدد کرتے رہے بعد ازاں محسن نے اپنے اوپر ظلم ہونے کو میڈیا کے سامنے لایا تو اس کی جان بخشی ہوئی۔ محسن نے بھی عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا ہے کہ اسے واقع کا علم نہ ہے جو بدنام زمانہ جے آئی ٹی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ جہاں تک ایس ایس پی موسی خان کا دھیرکوٹ تھانہ میں بزور قوت گرفتار شدگان کو چھڑانے کا تعلق ہے تو اس بارے میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں