گذشتہ ادوار میں اقوام عالم زمین کی وجہ سے لڑتی تھیں آج توانائی کے ذرائع پر لڑ رہی ہیں اور کل کی لڑائیاں پانی پر ہو ں گی۔معروف دانشور مارک ٹوین نے کہا تھا کے پینے کیلے صرف وہسکی رہ جائیگی اور پانی صرف لڑائیوں کیلے ہوگا۔بجا طور پر بیسویں صدی میں دنیا کی آبادی 3.8 فیصد کے حساب سے بڑھی اور پانی کا استعمال 9 گنا بڑھ گیا اور آج 7 بلین آبادی کی اس دنیا میں 55 فیصد سے زائد آبادی ان علاقوں میں رہ رہی ہے جہاں پانی کی شدید قلت ہے۔اور اس تعداد میں آئندہ دس سالوں میں دو تہائی اضافہ ہو جائیگا ۔اس وقت کرہ ارض پر بسنے والے لوگوں کے پاس صاف پانی اور سینی ٹیشن کی سہولت کی بہ نسبت موبائل فون کی سہولت زیادہ ہے۔صاف‘ سستا اور آسانی سے میسر آنے والے پانی کا نہ صرف گولڈن پیریڈ اب ختم ہو چکا ہے بلکہ آنے والے وقت میں پانی ایک تزویراتی اثاثہ (Strategic Asset) کے طور جیو پولٹیکل سیاست اور تنازعات کے طور پر کام کرے گا۔اس وقت دنیا میں، ملکی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر 257 تنازعات صرف پانی کی وجہ سے ہیں اورپانی کی مقدار اور ذخائر میں تیزی سے ہوتی ہوئی کمی کے باعث ان تنازات میں اضافہ ہو گا ۔جن ممالک کے پاس پانی کے مطلوبہ ذخائر میسر نہ ہیں ان کی معیشتں بری طرح بیٹھ جائیں گی بالخصوص زراعت اور روائیتی انڈسٹری پر چلنے والی معیشت اس کا اولین شکار ہونگی۔
عالمی سطح پرپانی کے ذخائر میں خاطر خواہ کمی کی وجوہات میں جہاں آبادی اورپانی کے استعمال میں بے پناہ اضافہ شامل ہے وہیں موسمیاتی تغیر و تبدل(Climate Change) نے بھی اس مسئلہ کو ایک Crisis میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔دنیا میں پانچ سب سے زیادہ خوراک پیدا کرنے والے (Food Producers) ممالک (برازیل،چائنہ،فرانس ،میکسیکو اورامریکہ میںپانی کے استعمال کی کارکردگی (Efficiency) 23.8 ڈالر فی مکعب میٹر (Cubic Meter) ہے جبکہ پانی میں یہ 3.34 ڈالر فی مکعب میٹر (Cubic Meter)ہے
ایک ریسرچ کے نتائج کے مطابق اگر کرہ ارض پر موجود پانی کو ایک گیلن تصور کیا جائے تو اس میں سے صرف چائے کا ایک چھوٹہ چمچہ انسانیت کے لیے میسر ہے۔بقیہ گلیشئیرز،سمندر،بادل اور زیر زمین ذخائر کی صورت میں ہے جوکہ براہ راست استعمال میں نہیں لایا جاسکتا۔اس ایک چھوٹے چائے کے چمچے کے برابر میسر پانی کو کس بے دریغ طریقے سے ہم استعمال کررہے ہیں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔پانی کی مقدار(Quantity)اور کوالٹی(Quality) دونوں ہی انسانی سرگرمیوں سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔پاکستان اپنی جغرافیاںپوزیشن کے باعث ساوتھ ایشیاکے اس خطہ میں ہے جہاں پر گلوبل وارمنگ اور Climate Change) کے اثرات سب سے زیادہ ہیںاور اس وقت سب سے زیادہ Vulnerableممالک میں شمار ہو رہا ہے ۔ پاکستان میں 1951میں اوسطاً تقریباً 5300کیوبک میٹر پانی فی فرد سالانہ میسر تھا جوکہ اب کم ہوکر1000کیوبک میٹر تک آچکا ہے ۔ اور اس سے کم مقدار Water Scarceخطہ میں شمار ہوگی جوکہ نہ صرف پینے اور گھریلو استعمال بلکہ ایگریکلچر ،لائیوسٹاک،ایری گیشن اور ہائیڈل سمیت دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی کو نہ صرف بری طرح متاثر کریگی بلکہ ناممکن بنادیگی۔22مارچ کے دن پاکستان سمیت پوری دنیا میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور ایک روز بعد یعنی 23مارچ کو ورلڈ میٹرولوجیکل ڈے منایا جاتا ہے ۔اس دن کی اہمیت کے پیش نظر سمینار،کانفرنسز ،ورکشاپس اور واک پوری دنیا میں کی جاتی ہیں اور مہذب اقوام اس دن کے حوالہ سے آنے والے اعداد وشمار اور پیغامات کی روشنی میں موثئر اوربروقت پلاننگ کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک کے لیے سٹرٹیجز اور پلان تشکیل دیتے ہوئے عملدرآمد شروع کردیتے ہیں۔جبکہ ہم اس دن کو ایک دن کی حد تک منا کر پورے سال کا حق ادا کرنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔یوں تو پانی کے بغیر زندگی کا تصور ہی ناممکن ہے اوراس کی تمام جہتوں کا احاطہ پوری کتاب کا موضوع ہے ۔پانی کے حوالہ سے چند بنیادی حقائق اور اعداد وشمار کو اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا میں 70فیصد سے زائد پانی زراعت کے شعبہ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس میں بھی دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ایک کلو چاول پیدا کرنے کے لیے 1500لیٹر پانی درکار ہے جبکہ ایک کلو گوشت اور دو سٹیکز(Steaks) پیدا کرنے کے لیے 15000لیٹر پانی درکار ہوتا ہے ۔جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غذائی اور ڈائیٹ پیٹرن میں تبدیلی لاکر پانی کے استعمال کو کس قدر کم کیا جاسکتا ہے ۔انڈسٹری سیکٹر کے اندر بے پناہ صاف پانی استعمال کرتے ہوئے گندے پانی کا سیلاب نکالا جاتا ہے جو پھر سے زیر زمین اور زمینی پانی کے تازہ ذخائر کو آلودہ اور زہر آلود بنا رہا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ایک کار بنانے کے لیے ایک سوئمنگ پول بھرنے سے کئی گناہ زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسف کی رپورٹس کے مطابق 70فیصد سے زائد بیماریاں پینے کے پانی سے متعلقہ ہیںاور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک اور رپورٹ کے مطابق کسی ہسپتال میں 100میں سے 40بیڈ کے مریض پانی کے متعلقہ بیماریوں کے ہوتے ہیں۔یونیسف کی ہی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ94000ہزار بچے پانی اور سینی ٹیشن کے متعلقہ بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔انڈیا اور انڈونیشیاءکے بعد پاکستان دنیا میں 40ملین آبادی کے ساتھ کھلے عام رفع حاجت(Open Defection)کرنے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں65فیصد سے زائد پینے کے پانی کے نمونے آلودہ پائے گئے اوربیکٹریل آلودگی جوکہ انسانی فضلہ سے پانی میں شامل ہوتی ہے ،کا کردار کلیدی ہے اور پھر یہ آلودہ پانی انسانی حیات سمیت دیگر تمام مخلوق اور قدرت کے متوازن اورمعتدل ایکوسسٹم کو تباہ کر رہا ہے۔شہری آبادی میں بے پناہ اضافہ (Urbanization)صاف پانی کے ذخائر پر دن بدن بڑھتا ہوا ناقابل برداشت بوجھ ہے جس کے تحت دنیا میں ہر ہفتے کے دوران 10لاکھ لوگ شہروں میں منتقل ہوجاتے ہیں اور زمین پر رہنے والے انسانوں کی آبادی میں سے ہر دوسرا آدمی شہروں میں رہتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2050تک مزید2.5بلین افراد شہروں کا رخ کرینگے۔اور یہ امر اس قدر دلچسپ ہے کہ جب تک آپ یہ لائن پڑھ رہے ہونگے مزید 4آدمی شہری آبادی کا حصہ بن چکے ہونگے اور منتقلی کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ 93فیصد Urbanizationترقی پذیر ممالک میں ہورہی ہے ۔ پاکستان اس وقت ساو¿تھ ایشیا میں سب سے زیادہ تیزی سے Urbanizeہونے والا ملک ہے ۔امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتا ہوا فرق پانی کے بے تحاشا استعمال میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے ۔ایک امریکی روزانہ7500لیٹر پانی استعمال کرتا ہے جبکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک جیسا کہ پاکستان، بھارت، نیپال ، کینیا میں یہ مقدار 10لیٹر فی فرد روزانہ بھی نہیں ہے ۔اسی طرح پوری دنیا میں استعمال ہونے والی بجلی کا 16فیصد حصہ پانی سے آتا ہے اور اگلی دو دہائیوں میں عالمی سطح پر3700ڈیمز کے ذریعہ سے اس شرح کو دوگنا کرنے کے منصوبہ بندی ہے ۔جس سے براہ راست پانی کے صاف ذخائر متاثر ہونگے۔پاکستان میں جہاں اس وقت انرجی کا شدید بحران ہے اگر موئثر منصوبہ بندی کرتے ہوئے بروقت اقدامات نہ کیئے گئے تو شاہد عوام 2020کے بعد بجلی کے بجائے ” پانی پانی “ کرینگے۔موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے نہ صرف مون سون کے سیزن تبدیل ہوچکے ہیں بلکہ موسم سرما،گرما بہار اور خزاں کے دوران ہونے والی باران رحمت کے ٹائمنگ اور پیٹرن میں حیران کن تبدیلی آچکی ہے جس کی وجہ سے ہم غذائی قلت کا شکار ہونے سمیت خشک سالی، قحط اور خدانخواستہ تھر جیسی صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ ان حالات کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کا سامنا بھی ہے۔ جو تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اس خطہ میں مستقبل کی جنگوں کی بنیاد بھی رکھ رہا ہے۔بھارت پاکستان کی طرف آنے والے تمام دریاو¿ں پر پانی کو ذخیرہ کرنے کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے بیشمار منصوبوں پر بھی تیزی سے عمل پیرا ہے اور اگر ان سارے منصوبوں پر عملدرآمد مکمل ہوگیا تو پاکستان نہ صرف زرعی لحاظ سے بنجر ہوجائیگا بلکہ شدید غذائی بحران کا شکار بھی ہوجائیگا۔عالمی منظرنامے کے بعد پاکستان کے صرف ایک ہی سیکٹر کا ذکر کر لیتے ہیں جسکو پوری دنیا میں اتفاق رائے سے ملک کا مستقبل اور ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے میری مراد ” شعبہ تعلیم“ ہے۔پاکستان میں کل 260,000تعلیمی ادارے ہیں جن میں سے پبلک سیکٹرمیں 1800,000اور پرائیویٹ سیکٹر میں80,000ادارے ہیں۔ان میں بحیثیت مجموعی 4کروڑ 10لاکھ 18ہزار طلباءوطالبات زیر تعلیم ہیں ۔جنہوں نے آئندہ سالوں میں ملک کے مستقبل کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے اس وقت محکمہ تعلیم حکومت پاکستان کی اپنی ہی رپورٹ کے مطابق47فیصد اداروں میں پینے کے پانی کی سہولت میسر نہیں ہے اور 64فیصد تعلیمی اداروں میں بنیادی سینی ٹیشن کے لیے ٹوائلٹ ہی موجود نہیں ہے اور جہاں یہ دونوں بنیادی سہولیات میسر ہیں وہیں ان کا استعمال بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔پاکستان کی موجودہ ترجیحات کے تناظر میں واٹر سیکٹر کا منظر نامہ خاصا خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت، آبادی میں بے پناہ اضافہ ،پانی کے ذخائر کا بے تحاشا استعمال صنعتی آلودگی ‘ زراعت و آبپاسی کیلے قدیم ٹیکنالوجیز کا استعمال ‘ واٹر سیکٹر کیلے کسی واضح روڈ میپ (Road Map) کی عدم موجودگی اور قومی لیڈرشپ کی ترجیحات میں پانی کے متعلق سوچ وبچار نہ ہونا چند وہ بنیادی مسائل ہیں جن کو ایڈریس کیئے بغیر پانی جیسے زندگی و موت کے اہم مسئلہ میں خاطر خواہ نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کیلے حالیہ وقتوں میں گیم چینجر تصور کیا جانے والا چائنہ پاکستان اقتصادی راہ داری کا منصوبہ (CPEC) کے تمام تزویراتی منصوبہ جات خواہ وہ انڈسٹریل سیکٹر کے متعلقہ ہوں ،انرجی سیکٹر کے متعلق ہوں، کمرشل سیکٹر کے متعلق ہوں یا کنسٹرکشن سیکٹر کے متعلق پانی کے بے پناہ استعمال کے متقاضی ہیں اور سی پیک سے مکمل استفادہ پانی کے دستیاب وسائل کی بہتر اور بروقت منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں۔اس منصوبہ کی سرگرمیوں میں جوں جوں تیزی آئیگی پانی کا استعمال بھی بڑھے گا اور پہلے سے کم ہوتے ہوئے ذخائر پر دباﺅ میں مزید اضافہ ہوگا۔ آزادکشمیر تقابلی لحاظ سے ایک چھوٹا خطہ لیکن اس سیکٹر کی صورتحال یہاں بھی مثالی نہ ہے ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت آزادکشمیر میں 57فیصد آبادی کو پینے کے پانی تک رسائی (Access)ہے جبکہ 62فیصد آبادی کو بنیادی سینی ٹیشن تک ۔اس کے علاوہ آزادکشمیر میں 6075تعلیمی ادارے پبلک سیکٹر میں کام کر رہے ہیں جن میں ساڑے پانچ لاکھ (55,0000)سے زائد طلباءوطالبات رجسٹرڈ ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق آزادکشمیر کے تعلیمی اداروں میں 52فیصد اداروں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت جبکہ74فیصد تعلیمی اداروں میں ٹوائلٹ کی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں ہے ۔جس سے صاف پانی کی فراہمی کی اہمیت اور باقی ماندہ کام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صرف صاف اور آلودگیوں سے پاک پانی ہی صحت کی ضمانت ہے۔ہمارے آئین اور بین الاقوامی وعدوں (Committments) کے مطابق پانی اور بنیادی سینی ٹیشن جیسی سہولیات کی فراہمی کوبنیادی انسان حق (Fundamental Human Rights)کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے ۔اور تصور کریں کہ بغیر ٹوائلٹ کے استعمال کے 7-6گھنٹے کسی سکول میں پڑھنا کس قدر تکلیف دہ امر ہوتا ہوگا اور جہاں صنفی توازن کی بات کی جاتی ہے وہیں پر سکولز کی بچیوں کے لیے یہ کس قدر تکلیف دہ پہلو ہے ۔کیا جس کوالٹی ایجوکیشن یا نیشنل ایکشن پلان کے ذریعہ سے نیشن بلڈنگ کی بات کی جاری ہے اس کے لیے تعلیمی اداروں میں یہ ماحول سازگار ہے (Enabling Environment)۔کوئی ذی ہوش ہی اس کا جواب ہاں میں دے سکتا ہے ۔عالمی سطح پر واٹر اینڈ سینی ٹیشن سیکٹر میں سرمایہ کاری کو خاطر خواہ اقتصادی ترقی سمجھتے ہوئے اس سیکٹر کو ترجیح میں رکھا جاتا ہے ۔ سروے ،ریسرچ اور اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پانی اور سینی ٹیشن سیکٹر میں ایک امریکن ڈالر کی سرمایہ کاری کا ریٹرن 5تا28ڈالر تک ہے۔ حکومت اس سیکٹر میں خاطر خواہ بجٹ مختص کرنے کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر کو ساز گار ماحول فراہم کرتے ہوئے سرمایہ کاری کے ذریعے تعلیمی اداروں کی بالا صورتحال میں انقلابی تبدیلی لاسکتی ہے ۔ اسکے علاوہ بروقت اور باخبر پلاننگ کے ذریعہ سے واٹر سیکٹر کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈنگ کرتے ہوئے قابل عمل، مختصر اور طویل مدتی منصوبہ جات پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہی اس وقت کی اہم ترین قومی ضرورت ہے ۔ جن ممالک نے بھی ترقی کی ہے انہوں نے سب سے پہلے تعلیم،صحت اور پانی جیسے شعبہ جات پر بجٹ مختص کرتے ہوئے اپنے اداروں (Institutions)،سسٹم اور طرز حکمرانی (Governance) کو بہتر کیا یہ ان کی ترقی کا راز ہے۔