اتوار, اکتوبر 1, 2023
الرئيسيةتازہ تریننٸے عہد کا جنم تحریر۔۔الیاس کشمیری

نٸے عہد کا جنم تحریر۔۔الیاس کشمیری

2008 کے عالمی معاشی بحران کے تضادات پھٹ کر سامنے آنا شروع ھو گٸے ھیں اس بحران کے اثرات عالمی طور پر سیاسی اور سماجی صورت میں اپنا اظہار کر رہے ھیں۔ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے سماجوں میں نہ صرف یہ اثرات سامنے آۓ ھیں بلکہ ان میں واضح طور پر ایک نیا عہد جنم لیتا ھوا نظر آتا ھے۔گزشتہ ایک سال میں پاکستانی عوام نے ان پرانے خیالات اور نظریات کو کاری ضرب لگاٸی ھے جو خیالات اور نظریات چند سال پہلے عوام کے لیے بہت مقدس تھے۔ھم اگر گزشتہ حالات اور واقعات پر گہراٸی سے نظر ڈالیں تو مستقبل کی بہتر پیش بندی کر سکتے ھیں جو کہ انقلابی قوتوں کے لیے از حد ضروری ھے۔گزشتہ تیس سالہ عہد دنیا بھر کےساتھ ساتھ پاکستان اور خطے کے عوام کے لیے انتہاٸی بھیانک عہد تھا۔ریاستی حکمرانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ہر چاروں اطراف عوام کو استحصالی شکنجوں میں جھکڑا ھوا تھا اگر اس استحصال کے خلاف کہیں سے آواز اٹھتی تو اسے بازور طاقت دبا دیا جاتا رہا ھے۔کہیں سے بھی حقوق کے لیے آواز اٹھتی تو ایسی آواز بلند کرنے یا سوال اٹھانے والے کو گستاخِ رسول کا فتوی صادر کر کہ قتل کر دیا جاتا رہا ھے۔اس درد ناک اور جبر پر مبنی عہد میں اگر ریاستی حکمران طبقے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک منظم بغاوت رہی تو وہ بلوچستان کےعوام کی جدوجہد تھی جو کہ ابتداٸی شکل میں تو آزادی پسندوں کی جدوجہد نظر آٸی لیکن جوں جوں ریاست نے بازور طاقت اس جدوجہد کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کی یہ جدوجہد عوامی حمایت حاصل کرنا شروع ھو گٸی اور جب ریاست کا جبر اجتماعی نسل کشی کی شکل اختیار کر گیا تو عوام کی وابستگی اس جدوجہد کے ساتھ حمایت تک محدود نہیں رہی بلکہ عوام اس جدوجہد میں ریاستی جبر کے خلاف اپنا منظم اظہار بھی کرنے لگے۔بلوچ تحریک میں اگر کوٸی بڑی کمی رہی تو وہ یہ کہ پاکستان کے عوام کی طرف سے اس تحریک کو حمایت حاصل نہیں ھو سکی جو کہ پاکستان کے باہیں بازو پر ایک سوالیہ نشان ھے۔گو کہ بلوچستان کے علاوہ کہیں سے بھی حکمران طبقے کے خلاف منظم آواز نہیں اٹھی اسی لیے اس عہد کو عوامی تحریکوں کے حوالے سے جمود کا دور بھی کہا گیا ھے لیکن اس عہد میں اس ظلم جبر اور استحصال کی کوکھ میں بغاوت کے جذبات پلتے رہے ھیں جنھوں نے اب جا کر اپنا اظہار کیا ھے۔گزشتہ چند مہینوں کا اگر تجزیہ کیا جاۓ تو ہر چار سو عوام نے ظلم جبر استحصال پر مبنی نظام اور فرسودہ و متروک خیالات اور نظریات کو رد کیا ھے۔جو ہنوز ایک تسلسل کے ساتھ ذیادہ شدید اور جاندار ھوتا جا رہا ھے۔مشال قتل کیس میں طلبا اور عوام کے احتجاج نے ریاست کو مجبور اور بے بس کیا کے مشال کے قاتلوں کو گرفتار کریں عوامی پرتوں سے تیس سالہ عہد میں یہ پہلی منظم آواز تھی جس نے پرانے متروک ھوتے ھوۓ مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت کے خیالات کو مسترد کرتے ھوۓ یہ نعرہ بلند کیا کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ جب چاٸے کسی بھی انسان کو گستاخِ رسول کہہ کر قتل کر دۓ۔عوام اور طلبا کی طرف سے مشال کو مذہبی آڑ میں قتل کرنے کی مزحمت کے ساتھ ساتھ پہلی بار عوام بالخصوص نوجوان طلبا میں مذہبی عقاہد اور مذہب کو سرمایہ دارانہ نظام میں بطور ہتھیار استعمال کرنے جیسے خیالات پر سوالات اٹھاۓ گٸے اور سوشل میڈیا سے لیکر عام نجی محفلوں میں بھی اس پر گفت و شنید کا آغاز ھوا۔زینب جنسی قتل کیس اور کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی ذیادتی کے واقعات پر عوام کے غم وغصہ اور بھر پور احتجاج نےگزشتہ تیس سالہ مذہبی خوف و حراس کو توڑا اور عوام نے مذہبی جہالت اور مدرسوں کو کھلے عام حرفِ تنقید بنایا۔عوام نے زینب جنسی بربریت اور قتل کے خلاف ایک احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کی اور اسی دباٶ میں آ کر مجرم کو گرفتار کیا گیا۔ملاحیت کے فیض آباد دھرنے نے ملاحیت کی جہالت کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا اور عوام کے لیے جو ملاحیت اور رجحانات مقدس ھوا کرتے تھے عملأ ایک مذاق اور لطیفہ بن گٸے ھیں۔ اسی دوران قاہدِ اعظم یونیورسٹی سے لیکر بولان میڈیکل کالج تک ھمیں طلبا کے منظم احتجاج بھی دیکھنے کو ملتے ھیں جو گزشتہ تیس سالوں میں پہلی بار ایک منظم اور تسلسل کے انداز میں آگے بڑھے ھیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھی گزشتہ سات دھاہیوں میں پہلی بار اپنے حقوق کے حصول اور دونوں قابض ممالک کے حکمران طبقے کے خلاف آوازِ آزادی کو بلند کیا ھے ہولاڑ کے مقام پر پاکستانی آرمی کی طرف سے قاہم چیک پوسٹ پر پندرہ سالہ مقامی لڑکی کو اغوا کر کے فوجی سپاہی کی جانب سے اس کے ساتھ کی جانے والی جنسی ذیادتی کے خلاف عوام نے کوٹلی شہر کو مکمل جام کر کہ احتجاج کیا اور جو فوج آج سے کچھ داہیاں پہلے عوام کے لیے مقدس ھوا کرتی تھی عوام نے اس فوج کے انخلا کا مطالبہ کیا اس کے علاوہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر کے گردونواح کے عوام نے بلا اشتعال فاہرنگ اور پاکستانی قابض فوج کی جانب سے لگاٸی جانے والی معاشی پابندیوں کے خلاف عوامی ایکشن کمییٹی کی کال پر دو امن مارچ کیے دونوں امن مارچوں کے نعرۓ اور مطالبات بیرونی تسلط کے خاتمے اور بنیادی حقوق کی فراہمی کے تھے۔ان دونوں احتجاجوں پر ریاست کی جانب سے بھیانک تشدد کیا گیا جس میں درجنوں نہتے شہری زخمی ھوۓ۔ریاستی دہشت گردی کے تسلسل کو جاری رکھتے ھوۓ سولہ مارچ کو پر امن نہتے عوام پر گولیاں برساٸی گٸیں جس سے درجنوں شہری زخمی ھوۓ اور نعیم بٹ شہید ھوۓ۔گلگت بلتستان کے عوام نے بے جا ٹیکسوں کے خلاف ایک لمبی اور منظم احتجاجی تحریک چلاٸی اور ہنوز مختلف ایشوز پر گلگت بلتستان کے عوام نوجوان اور طلبا اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نظر آتے ھیں اور ہر بار پہلے کی نسبت یہ احتجاج زیادہ منظم انداز میں سامنے آتے ھیں۔وزیرستان کا علاقہ جس کے بارۓ میں یہ مشہور تھا کہ وہاں بہت زیادہ جہالت اور مذہبی انتہا پسندی پاٸی جاتی ھے۔وزرستان کے عوام نے پشتون تحافظ کمیٹی کی قیادت میں ہزاروں کی تعداد ۔میں پر زور احتجاجی تحریک کا آغاز کیا ھے۔اس احتجاج کی خاص بات کے وزیرستان

مقالات ذات صلة

الأكثر شهرة

احدث التعليقات