اتوار, اکتوبر 1, 2023
الرئيسيةتازہ تریننوجوان تاجر کا اغوا...تحریر۔۔۔الیاس کشمیری

نوجوان تاجر کا اغوا…تحریر۔۔۔الیاس کشمیری

نوجوان تاجر کا اغوا۔۔۔۔۔۔۔۔انجمن تاجران کا احتجاج۔۔۔۔۔۔۔۔حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت۔
تحریر۔۔۔الیاس کشمیری
پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں قابض ریاست بلوچستان جیسے حالات پیدا کر رہی ھے اور مقامی گماشتہ کٹھ پتلی حکمران خاموش تماشاٸی کا کردار ادا کر رہے ھیں۔آج سے 25 دن قبل باغ کے نوجوان تاجر حبیب کو کمرشل مارکیٹ راولپنڈی سے اغوا کیا گیا۔اغوا کار اپنے آپ کو حساس ادارۓ کے نماہندۓ کہہ رہے تھے۔حبیب کے اغوا کی ایف۔آٸی۔آر متعلقہ تھانے میں درج ھونے کے باوجود نہ کوٸی کارواٸی عمل میں لاٸی گٸی اور نہ ہی ابھی تک کوٸی سراغ مل سکا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ھے۔گزشتہ پچیس دن سے اسے نہ معلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ھے۔انجمن تاجران باغ نے دٶ دن قبل حبیب کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا۔گزشتہ دو ماہ کے حالات اور واقعات کا جاہزہ لیا جاۓ تو پاکستان کے مختلف شہروں میں گلگت کے چار نوجوانوں کا قتل کیا گیاھے۔ایک ہفتہ قبل باغ کے ایک ریاہشی نوجوان طاہر کو جو کہ دوبٸی سے گھر آ رہا تھا اسلام آباد اٸیر پورٹ سے اغوا کرنے کی خبر گردش میں تھی جس کی حقیقی صورتحال کے بارۓ میں معلومات نہیں ھیں۔اور پھر پانچ دن پہلے گلگت بلتستان ایپیلنڈ کوٹ کے صدر معروف قانون دان سیاسی و سماجی راہنما احسان ایڈوکیٹ کو بغیر کسی جرم اور وارنٹ کے رات کی تحریکی میں گھر سے اٹھا لیا گیا۔گزشتہ دو ماہ میں رونما ھونے والے ان واقعات کو الگ الگ حادثوں کے طور پر دیکھنے سے نہ ہی ان کی وجوہات کو سمجھا جا سکتا ھے اور نہ ہی آنے والے وقتوں میں ایسے واقعات کا سدِباب کیا جا سکتا ھے۔ہمیں راولپنڈی.اسلام آباد لاھور اور کراچی سے نوجوانوں کی لاشیں بھیجی جا رہی ھیں اور نوجوانوں کو اغوا کیا جا رہا ھے۔یہ سرگرمیاں قابض ریاست کی آج سے نہیں ہیں بلکہ بلوچ اور سندھی عوام گزشتہ کٸی دھاہیوں سے اغوا کاری اور قتل وغارت کا یہ سلسلہ سہہ رہے ھیں۔بلوچ عوام تو اجتماعی نسل کشی۔مسخ شدہ لاشوں اور بولنے سوچنے آواز اٹھانے والوں کی ہزاروں میتوں کو کندھا دۓ چکے ھیں اور ہنوز یہ نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ھے۔بلوچوں اور سندھیوں کو بھی اغوا اور قتل کرنے کے سلسلہ کا آغاز بالکل اسی طرح پاکستان کے شہر کراچی سے ھوا تھا جس طرح آج پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ پنجاب اور کراچی کے شہروں میں شروع ھو چکا ھے۔اغوا کاری اور قتل و تشدد کے ان واقعات پر کٹھ پتلی حکمرانوں کی جانب سے مکمل خاموشی پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کے لیے لمہہ فکریہ ھے۔کٹھ پتلی حکمران راستی شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار ھیں۔لیکن وہ اپنی اس ذمہ داری سے مسلسل مجرمانہ غفلت برت رہے ھیں۔جو کہ اس بات کی عکاسی ھے کہ کٹھ پتلی حکمران عوام کے مفادات کے محافظ نہیں ھیں بلکہ قابض ریاست کے حکمرانوں جاگیردارٶں اور فوج کے مفادات کے محافظ ھیں۔ان کٹھ پتلی حکمرانوں نے عارف شاھد کے قتل کیس سے لیکر حبیب کے اغوا تک ایک مکمل خاموش مجرمانہ غفلت برتی ھے۔گماشتہ حکمرانوں کی یہ مجرمانہ غفلت اور قابض ریاست کی جانب سے تسلسل کے ساتھ نوجوانوں کی اغوا کاری اور لاشوں کا ملنا پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو نٸے سرۓ سے سمجھنے اور سوچنے پر مجبور کرتا ھے۔اس کے ساتھ ساتھ دونوں قابض ممالک کی جانب سے خونی لکیر پر بلا اشتعال فاہرنگ سے کشمیریوں کی لاشیں گر رہی ھیں۔جس پر مغفر آباد میں بیٹھے کٹھ پتلی حکمران ماسواۓ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کے دعوۓ کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکے اور نہ ان کے بس میں ھے۔ان تمام حالات میں جموں کشمیر گلگت بلتستان کے عوام ہر تین اطراف ایک غیر محفوظ۔غیر مستحکم اور لا وارثی کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔گلگت بلتستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو پاکستانی ریاست کے قاتلانہ کردار کو بنگلہ دیش سے لیکر سندھ اور بلوچستان تک دیکھنا سمجھنا اور پرکھنا ھو گا۔ماضی قریب میں اغوا کاری ریاستی جبر و تشدد کا جو سلسلہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ شروع کیا گیا ھے اس کے پیچھے قابض ریاست کی جانب سے قبضہ گیریت کے توسیع پسندانہ عزاہم کار فرماں ھیں۔عارف شاھد شہید کے قتل سے لیکر حبیب کےاغوا باغ کے نوجوان سرفراز کے قاتلوں کے لیے صدرِ پاکستان کی طرف سے معافی کے اعلان اور احسان ایڈوکیٹ کی بلا جواز گرفتاری کے واقعات کو ہمیں جوڑ کر دیکھنا ھو گا۔چونکہ ان واقعات میں قابض ریاست کے اقدامات کے ساتھ یہاں کا حکمران طبقہ یا تو شامل رھا ھے یا پھر خاموشی کا مرتکب ھو کر قابض ریاست کا سہولت کار اور گماشتہ ھونے کا ثبوت دۓ رہا ھے۔ایسے حالات میں عوام کو نہ صرف منظم ھونا ھو گا بلکہ دونوں اطراف پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو نٸے سرے سے رشتے استوار کرنے ھوں گے۔اور قابض ریاست کی جانب سے جاری ظلم۔جبر۔اور تشدد کو بے نقاب کرنا ھو گا۔خواہ وہ جبر و تشدد گلگت کے عوام پر ھو یا پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام پر یا پھر اس کا تعلق بلوچ عوام کی اجتماعی نسل کشیوں کی حولناکیوں سے ھو یا پھر سندھ اور پختونخواہ کے عوام کے قتل و غارت سے ہمیں بلا رنگ نسل مذہب علاقہ اس جبر و تشدد کی عملأ مزاحمت کرتے ھوۓ منظم ھونا ھو گا۔پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کے درمیان پھیلاٸی جانے والی نفرتوں گماشتہ حکمرانوں اور قابض ریاست کی عوام کو تقسیم کرنے کی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کا تجزیہ کرنا ھو گا۔گلگت بلتستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے فطری وساہل کی کھلم کھلا لوٹ کھسوٹ تو گزشتہ سات دھیوں سے جار ی ھے لیکن اب یہاں کے عوام کے ساتھ بلوچستان جیسا کھیل کھیلنا شروع کر دیا گیا ھے۔اگر آج عوام دونوں اطراف منظم ھو کر اس بے ھودہ حولناک کھیل کو چیلنج نہیں کریں گے تو آنے والے وقتوں میں ہمیں اجتماعی نسل کشی کی صورت میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑۓ گا۔گلگت بلتستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو نٸی بنیادوں پر منظم ھونا ھو گا اور پاکستان میں محکومی کے خلاف اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام با لخصوص بلوچ عوام کے

مقالات ذات صلة

الأكثر شهرة

احدث التعليقات