طلبا کی قوت۔۔۔۔۔۔۔۔؟
تحریر۔۔الیاس کشمیری
گزشتہ ایک ہفتے سے باغ میں این۔ایس۔ایف اور پی۔ایس۔ایف کے درمیان ایک تصادم کی سی شکل میں مختلف قسم کی ڈرامے بازیاں دیکھنے کو ملیں جو کہ طلبا تنظیموں کے معیار اور کردار پر سوالیہ نشان چھوڑ گٸیں ھیں۔جموں کشمیر این ایس ایف علم جدوجہد فتح کے سلوگن اور پی ایس ایف علم جدوجہد انقلاب کے سلوگن پر طلبا میں کام کر رہی ھیں اور دونوں کا یہ دعوی ھے کہ وہ طلبا حقوق اور محنت کش عوام کی انقلاب کے ذریعے نجات کی جدوجہد کر رہی ھیں۔چونکہ دونوں طلبا تنظیمیں ھیں اس لیے ھم یہاں صرف ان کے دعوۓ کے پہلے حصے کو ہی مختصر زیرِ بحث لاہیں گے ۔دونوں طلبا تنظیمیں طلبا حقوق کی جدوجہد کی دعوۓ دار ھیں۔اور ہر دونوں اطراف اس دعوۓ کو ثابت کرنے کے لیے ایک نعرہ لگایا جاتا ھے کہ قوت ہی قوت این ایس ایف اور قوت ہی قوت پی۔ایس ایف۔اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ یہ فیصلہ تو طلبا نے کرنا ھے کہ طلبا کی قوت ان میں سے کون ھے۔چونکہ طلبا کی قوت وہی ھو گی جس کے ساتھ طلبا نظریاتی اور فکری طور پر بڑی تعداد میں وابستہ ھوں گے۔اس بات کے فیصلے کا اختیار اگر طلبا کو دۓ دیا جاۓ تو پھر ان طلبا تنظیموں کو اپنے نظریے منشور اور طلبا حقوق کے پروگرام پر طلبا میں نظریاتی کام کرنا پڑۓ گا اس کے لیے تنظیمی سطح پر سٹڈی سرکلز اور تربیتی پروگرامات کے ذریعے اپنی قیادت اور کارکنوں کی نظریاتی تربیت کرنا پڑھے گی۔اپنی نظریاتی حرجمانی کو ثابت کرنے کے لیے طلبا میں نظریاتی مباعث کا آغاز کرنا پڑھے پھر جا کر طلبا اپنی وابستگی سے ثابت کریں گے طلبا کی قوت کون سی ھے۔لیکن بد قسمتی سے طلبا کو یہ اختیار نہیں دیا جاتا کہ وہ یہ فیصلہ کریں کے طلبا کی قوت کون سی ھے۔بلکہ دیکھنے میں آیا ھے کہ کالج کے اندر موجود باغیچہ نما جگہ جس تنظیم کو بھی خالی ملے وہاں داہرہ لگا کر سرخ پرچم لہرا کر نعرۓ لگاۓ جاتے ھیں۔پی ایس ایف سرخ پرچم تلے علم جدوجہد انقلاب اور طلبا کی قوت پی ایس ایف کا نعرہ لگاتی ھے۔اور این ایس ایف سرخ پرچم تلے علم جدوجہد فتح اور طلبا کی قوت این ایس ایف کا نعرہ بلند کرتی ھے۔خود کو طلبا کی قوت ثابت کرنے کے لیے دونوں تنظیمیں جب ایک ہی طریقہ اختیار کرتی ھیں تو عام طالبِ علم کے لیے یہ مشکل ھو جاتا ھے کہ وہ کس سے اپنی وابستگی ظاہر کرۓ اور کس بنیاد پر ظاہر کرۓ۔جب کوٸی نظریاتی مباحثہ نہیں ھے تو پھر ان طلبا تنظموں کی کالج کی قیادت اپنی تنظیم کو طلبا کی قوت ثابت کرنے کے لیے دھونس دھاندلی اور لڑاٸی جھگڑۓ کا سہارا لیتی ھے۔ایسے میں طلبا تنظیمیں علم و شعور کی بنیاد پر نہیں بلکہ پہلوانی اور بدمعاشی کی بنیاد پر ایک دوسرۓ سے گتھم گتھا ھوتی ھیں ایسے میں مارنے والا بھی غریب استحصال زدہ طالبِ علم ھوتا ھے اور زخمی ھونے والا بھی غریب استحصال زدہ طالبِ علم ھوتا ھے۔ ہسپتال میں بھی غریب اور تھانے میں بھی غریب طالبِ علم جاتا ھے اس طرح دھونس اور تشدد سے اپنی تنظیمی ہرجمانی قاہم کرنے کے بے ہودہ عمل سے ماضی میں بہت قیمتی طلبا راہنماٶں کی لاشیں بھی اٹھاٸی گٸیں لیکن اس سے سیکھنے کی کوشش نہیں کی گٸی.گزشتہ دنوں این ایس ایف اور پی ایس ایف کا باغ کالج میں تصادم بھی اسی فکر و عمل کا نتیجہ تھا جس میں پی ایس ایف کالج یونٹ کے صدر کو چوٹیں آہیں وہ شدید زخمی ھوۓ۔پی ایس ایف کی قیادت نے آٹھ دس این ایس ایف کے طالبِ علموں پر ایف آٸی آر درج کروا دیں یوں یہ معاملہ طول پکڑتے نظر آیا تا ھم این ایس ایف کا کوٸی کارکن گرفتار نہیں ھوا۔ایک دن گزرنے کے بعد پی ایس ایف کالج کے لڑکوں نے این ایس ایف کے سرخ پرچم کو کالج گراونڈ میں نذرِ آتش کیا۔سوشل میڈیا پر تصویر اپلوڈ ھوتے ہی ہر طرف سے پی ایس ایف کے طلبا کی طرف سے سرخ پرچم کو جلانے کی مزحمت سامنے آٸی صرف این ایس ایف نے ہی نہیں سرخ پرچم کو بطور عَلم اٹھا کر جدوجہد کرنے والی تمام قوتوں نے اس عمل کو محنت کش طبقے کے خون سے رنگے پرچم کی بے حرمتی قرار دیا اور متعلقہ ملزموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ دوسرۓ ہی دن پی اس ایف کے نوجوان ضلعی راہنما نعمان خورشید کی طرف سے ایک خبر جاری ھوٸی کہ این ایس ایف کا پرچم جلانے سے پی ایس ایف کا کوٸی تعلق نہیں ھے۔ اس عمل پر این ایس ایف کی قیادت سے مختلف کردار سامنے آۓ۔نیشنل عوامی پارٹی کے ونگ این ایس ایف باغ کی طرف سے ایک خبر جاری ھوٸی کہ پی ایس ایف کے طلبا نے پرچم نہیں جلایا یہ کوٸی نادیدہ قوتوں کی سازش ھے۔اور ساتھ ہی دوسرۓ دن ان معملات کو ختم کرنے کے لیے این ایس ایف ونگ کی مرکزی اور ضلعی قیادت جن میں مرکزی چیف آرگناہزر وقاص مجید اورمرکزی راہنما صمد شکیل بھی شامل تھے اور پی ایس ایف کے ضلعی صدر خالد مغل جنرل سیکرٹری ناصر قیوم اور دیگر عہدیداران شامل تھے مشترکہ اجلاس ھوا اور یہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ سرخ پرچم دونوں تنظیموں کے لیے مقدس ھے لہذا دونوں تنظیمیں مل کر پرچم نذرِ آتش کرنے والی نا دیدہ قوتوں کو بے نقاب کریں گٸیں جو قوتیں دونوں طلبا تنظیموں میں تصادم کو طوالت دینے کی سازش کر رہی ھیں۔عین اسی وقت این ایس ایف آزاد کے مرکزی صدر کامران بیگ جو مظفر آباد سے باغ تشریف لاۓ اکرام جہانگیر ونگ این ایس ایف کے سیکرٹری جنرل اور توصیف خالق یہ تینوں راہنما کارکنوں کی بڑی تعداد سمیت تھانہ باغ میں گے اور پرچم جلانے والوں کے خلاف ایف آٸی آر درج کرواتے ھوۓ باغ انتظامیہ کو دو دن کا ٹاہم دیا کہ اگر متعلقہ افراد کو گرفتار نہ کیا گیا تو این ایس ایف ریاست گیر احتجاج کرۓ گی۔اور سرخ پرچم کی حرمت کو دل و دماغ میں بسانے والے سرخیوں کا یہ عمل مثبت تھا۔۔ایک دن گزرنے کے بعد آج پی ایس ایف اور این ایس ایف کے مشترکہ اجلاس اور پی ایس ایف کی طرف سے پرچم نہ جلانے کے موقف کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا کہ جب پی ایس ایف کے لڑکوں نے مسلح ھو کر این ایس ایف کالج یونٹ کے عبدالللہ کو زخمی کر دیا۔اب اس پر نٸی کہانی کیا سامنے آۓ گی شاید یہ کہ جن لڑکوں نے آج حملہ کیا وہ گزشتہ دن کے فیصلے سے باغی تھے یا کچھ بھی