دلآزاری پر معذرت
یوم کشمیر یا یوم نوازشریف
سہہ پہر گھر سے باورچی خانہ کی ضرورت سے متعلق کچھ ضروری آئٹمز کی خریداری کے لیئے گھر سے زبردستی نکالا گیا۔ تو مظفرآباد شہر کے تمام بڑے چھوٹے سائن بورڈز، پلازوں، چوکوں چوراہوں، پلوں، شاپنگ سنٹرز، سٹریٹ لائٹس کو میاں صاحب کے استقبالیہ بینرز سے کھچا کھچ لدا پایا۔ راستے کی چمک دھمک دیکھ کر اشتیاق بڑا۔ تو جلسہ گاہ یونیورسٹی گراونڈ جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں کا نون پرور منظر تو یوں لگ رہ تھا۔ جیسے آزاد کشمیر میں ‘ن’ کی آج ہی بنیاد رکھی جا رہی ہو۔
لیکن دوستو! افسوس صد افسوس، اس چہل پہل، چمک دھمک، اچھل کود، اور میوزک میں اگر کسی چیز کی کمی تھی۔ تو بس وادی کشمیر کی۔ کہتے ہیں کہ
“A picture is better than thousand words”۔ وہ پینا فلیکس مشکل سے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا۔ جن پر “یوم یکجہتی کشمیر”کے الفاظ کسی کونے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ کوئ ایک بھی ایسا نہیں تھا۔ جس پر ستر برسوں سے پاکستانی پرچم تھامے راہنما؛ میر واعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی، سید شبیر شاہ، یسین ملک یا کسی اور حُریّت راہنما کی قد آور تصویر تو کیا، نام ہی نظر آجاتا۔ اگر دس فیصد پینا فلیکس اور سائن بورڈز شہداء کشمیر کی زینت ہی بن جاتے۔ صرف چند ہی کشمیر کے مشہور سیاحتی مقامات، پیلٹ گنز سے متاثرہ بچیوں، نوجوانوں اور راہنماؤں پر ڈھائے جانے والے دیگر مظالم کا احاطہ کرنے کے لیئے استعمال میں لائے جاتے۔ تو ہزاروں شرکاء جلسہ کا وادی کشمیر سے کچھ دیر کے لیئے روحانی تعلق ہی قائم ہو جاتا۔ یہی اس دن کا مقصد تھا۔ مگر مقصد کہیں اور سے نہیں، بیس کیمپ سے پس منظر میں چلا گیا۔
نعرہ تکبیر ۔۔ اللہ اکبر، تحریک آزادی کشمیر ۔۔ زندہ باد، شہدائے کشمیر ۔۔ زندہ باد، ہم لے کر رہیں گئے ۔۔ آزادی۔ ہے حق ہمارا ۔۔ آزادی۔ یہ بچے مانگیں ۔۔۔ آزادی۔ یہ مائیں مانگیں ۔۔ آزادی۔ انڈین ڈاگ ۔۔ گو بیک، کے نعرے لگے، نہ وہ جوش نظر آیا۔ بس میاں صاحب ۔۔ زندہ باد، دیکھو دیکھو کون آیا۔۔ شیر آیا، ووٹ کو ۔۔ عزت دو، نااہلی۔۔ نامنظور اور ہاں کشمیر بنے گا۔۔پاکستان، کے نعرے گونجتے رہے۔
یوم یکجہتی کشمیر ہو۔ اور مقررین انڈیا کا نام لینا بھی گوارا نہ کریں۔ مجھے اندازا نہیں تھا کہ ریاکاری ترقی کرتے کرتے یوم یکجہتی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لی گی۔
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گئے اک دن