سرینگر کے ایم این مرکزی وزارت دخلہ نے وادی کشمیرکے شمال و جنوب میں تعینات سی آر پی ایف کیلئے چھرے داغنے والی مزید قریب 5000 بندوقیںیعنی پیلٹ گن اور ان کے لئے لاکھوں کی تعداد میں پیلٹ شاٹس خریدنے کی منظوری دے دی ہے ۔ گزشتہ برس کے پر تشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران جب پیلٹ گن کے وسیع پیمانے پر استعمال کے نتیجے میں انسانی حقوق انجمنوں اور سیاسی پارٹیوں نے زبردست برہمی کا اظہار کیا تو مرکز نے پیلٹ گن کا متبادل تلاش کرنے کیلئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ مذکورہ گن کے استعمال پر روک لگائی جائے۔تاہم سیکورٹی ایجنسیوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ پیلٹ گن کا استعمال ہی پر تشدد احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کیلئے موثر ہتھیار ثابت ہوا ہے، لہٰذا اس کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔حالانکہ ماہرین کے مرکزی پینل نے وادی میں مظاہرین پر پیلٹ گن کے استعمال کو محدود کرکے مرچی پائوڈر سے بھرے پاوا شیل آزمانے کی سفارش کی جو حفاظتی اداروں کے مطابق غیر موثر ثابت ہوئے۔چنانچہ مرکزی وزارت داخلہ نے چھرے داغنے والی بندوقوں کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کرنے کی بجائے اس کے استعمال کے طریقہ کار میں بعض تبدیلیاں لاگو کرنے کا اعلان کیا تاکہ اس کے کم سے کم استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔تاہم نئی دلی سے شائع ہونے والی تازہ میڈیا رپورٹوں میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ وزارت داخلہ نے وادی میں تعینات سینٹرل ریزرو پولیس فورس﴿سی آر پی ایف﴾ کیلئے مزید4949پیلٹ گن خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد فورس کے پاس ان بندوقوں کی تعداد 5589تک پہنچ جائے گی۔ نئی بندوقیں وادی میں ریپڈ ایکشن فورس کی حیثیت سے مامور سی آر پی ایف کیلئے خریدی جارہی ہیں جن میں فورس کی خواتین یعنی مہیلا بٹالین بھی شامل ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے یہ منظوری جنوری کے مہینے میں دی ہے اور اس کیلئے لوازمات پورے کئے جارہے ہیں۔ مرکز نے سیکورٹی ایجنسیوں بالخصوص سی آر پی ایف کے اعلیٰ حکام کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ ریاست خاص طور پر کشمیر وادی میں تعینات سی آر پی ایف کی ہر ایک کمپنی﴿120اہلکار﴾ کے پاس 9پیلٹ گن دستیاب رہیں گے ۔معلوم ہوا ہے کہ فی الوقت فورس کے پاس 640پمپ ایکشن گن جنہیں عرف عام میں پیلٹ گن بھی کہا جاتا ہے، دستیاب ہیں اور آنے والے دنوں میں ایسے 4000سے زائد گن خریدنے کا منصوبہ مرتب کیا گیا ہے جس کا مقصد فورس کی ہر یونٹ کو مذکورہ گن سے لیس کرنا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر تشدد پر آمادہ مظاہرین پر قابو پانے کیلئے ان کا استعمال کیا جائے۔اس کے علاوہ مرکزی وزارت داخلہ نے پیلٹ گن میں استعمال ہونے والے 6لاکھ سے زیادہ چھروں کے کاٹرج جنہیں عام طور پر پیلٹ شاٹس کہا جاتا ہے، خریدنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔گزشتہ برس فورس کے پاس ایسے شاٹس کی تعداد 1.25لاکھ تھی۔قابل ذکر ہے کہ وادی کے مختلف علاقوں میں جنگجو مخالف کارروائیوں میں سی آر پی ایف بھی حصہ لیتی ہے اور حالیہ مہینوں کے دوران اس طرح کی کارروائیوں کے دوران لوگوں کی طرف سے پتھرائو اور احتجاج کے واقعات میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔کشمیر میڈیا نیٹ ورک کے مطابق سیکورٹی ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ نیم فوجی دستوں کی طرف سے ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے بھی پیلٹ گن ایک موثر ہتھیار ثابت ہوگا۔سی آر پی ایف کے ایک کمانڈرکے مطابق اس سے پہلے صرف شہر خاص جیسی ایسی جگہوں پر تعینات سی آر پی ایف یونٹوں کے پاس پیلٹ گن دستیاب رہتے تھے جہاں پر تشدد احتجاجی مظاہرے ہوا کرتے تھے لیکن اس طرح کے احتجاجی مظاہروں کا دائرہ اب چونکہ وادی کے شمال و جنوب میں پھیل گیا ہے، اس لئے سی آر پی ایف کی تمام یونٹوںاور ہر ایک کمپنی کو پیلٹ گن سے لیس کرنے اب ضروری بن گیا ہے ۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس حزب کمانڈر برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد کئی ماہ تک جاری رہنے والی پر تشدد ایجی ٹیشن کے دوران پولیس اور فورسز کی طرف سے پیلٹ بندوق استعمال کرنے کے نتیجے میں مجموعی طور ہزاروں افراد مضروب ہوئے جن میں سے 600سے زائد لوگوں کی بینائی مکمل یا جزوی طور متاثر ہوئی ،ان میں طلبہ کی خاصی تعداد بھی شامل ہے۔