احسان ایڈوکیٹ کی گرفتاری ریاست گردی کا تسلسل۔
تحریر۔۔الیاس کشمیری
گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کے ساتھ کھلواڑ کا ایک مسلسل عمل 1947 سے ہی جاری ھے۔جب غیر فطری اور جبر پر منتحج ریاست پاکستان کو تقسیم جموں کشمیر کی صورت میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ حاصل ھوا۔اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام دشمن بیرونی قابض قوتوں کے سہولت کاروں اور گماشتہ حکمرانوں نے گلگت بلتستان کا کنٹرول معاہدہ کراچی کے تحت قابض پاکستانی ریاست کو سونپ دیا۔اور قابض ریاست نے بدترین ایجنسی راج قاہم کر کے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کو تاراج کیا اور گلگت بلتستان کے عوام کی طاقت کو ہمیشہ شیعہ سنی فسادات پھیلا کر کمزور کرنے اور فرقہ وارانہ نفرتوں کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ھیں۔گلگت بلتستان کی خصوصی حثیت کی وجہ سے گزشتہ سات دہیوں سے گلگت بلتستان کے عوام کو آٸینی حقوق سے محروم رکھا گیا ھے لیکن اس کے عوض کچھ مخصوص شعبوں یا خردونوش کی اشیا پر سبسڈیز دی جاتی رہی تا کہ عوام کوٸی بڑا ردِ عمل نہ دکھا سکیں۔گو کہ رفتہ رفتہ یہ سبسڈیز ختم کی جاتی رہیں اور بالآخر صرف گندم کی سبسڈی یہاں کے عوام کے پاس باقی راہ گٸی۔2009 میں ایک سیلف گورننس آرڈر کے ذریعے پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو نیم صوباٸی درجہ دیا جس کے بعد ایک کٹھ پتلی اسمبلی بھی تشکیل پاٸی یہ اسمبلی پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی کی طرح اسلام آباد کی طرف سے تشکیل دی جانے والی گلگت بلتستان کونسل کے زیرِ نگیں ھے اور کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں ھے۔جب گندم کی سبسڈی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو 2014 میں اس کے خلاف پورۓ علاقے کے عوام میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔عوامی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ابتدا میں علاقاٸی سطحوں پر عوام اپنے طور پر احتجاج کرتے رہے لیکن عوامی ایکشن کمیٹی نے ان احتجاجوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا۔احسان ایڈوکیٹ اس عوامی ایکشن کمیٹی میں راہنمانہ کردار ادا کر رہے تھے۔تحریک کی شدت نے ریاست کو ہلا کر رکھ دیا اور ایسی تحریک ریاست کے لیے حران کن بھی تھی۔تحریک فرقہ وارانہ نفرتوں کو تار تار کرتے ھوۓ فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھی۔علاقاٸی سطح پر احتجاج ھوۓ گلگت کی طرف لانگ مارچ کیا گیا اور بالآخر تحریک کامیاب ھوٸی۔2014 کی تحریک کٸی حوالوں سے فیصلہ کن تھی کہ گلگت بلتستان کے عوام مزید دکھ۔درد۔محرومی اور زلت سہنے کو تیار نہیں ھیں۔ستر سالوں تک بنیادی حقوق سے محروم رہنے والے عوام نے 1988 سے جاری فرقہ وارانہ تضادات کو پاش پاش کیا۔ حیدر شاہ رضوی۔احسان ایڈوکیٹ اور بابا جان جیسے نڈر اور بے باک واضح نظری سمتیں رکھنے والے راہنما عوامی راہنما کے طور پر سامنے آۓ یہ ساری صورتحال گماشتہ حکمرانوں اور قابض پاکستانی ریاست کے لیے قابلِ قبول نہ تھی۔عوامی جڑت سے خوف زدہ حکمرانوں نے بابا جان کو گرفتار کر کے پابندِ سلاسل کر دیا۔بابا جان متاثرین عطاآباد جھیل کے حقوق کی جدوجہد میں پیش پیش تھے بابا جان اور دیگر اسیرانِ عطاآباد جھیل کو پابندِ سلاسل کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا اور بابا جان کو 40 سال کی قید کا فیصلہ سنایا گیا۔بابا جان عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی پاداش میں قید کی صعوبتیں برداشت کر رہے ھیں۔جو عارضِ قلب میں مبتلا ھونے کی وجہ سے ہسپتال میں زیرِ علاج ھیں۔2017 میں بے جا ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف گلگت بلتستان کے عوام نے منظم تحریک کا آغاز کیا۔اور موجودہ تحریک کے ابتدا میں ہی پہیہ جام اور شٹر ڈاون کی کال دی گٸی جو کہ کامیاب رہی۔لیکن اس کے بعد اس ہڑتال کو جزوی کر دیا گیا اور دھرنوں کا آغاز کیا گیا۔عوامی مساہل پر جدوجہد کرنے والے بابا جان ان کے ساتھی اور احسان ایڈوکیٹ جیسے راہنما جرات سے ریاست کے جبر اور اوچھے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کر رہے ھیں۔چونکہ یہاں عوامی ایشوز پر آواز اٹھانے والوں کے خلاف غداری اور دہشت گردی جیسے مقدمات چلانا ایک معمول بن چکا ھے۔جس کے ذریعے ایکشن کمیٹی کے اور دیگر ایسے راہنماوں کو پابندِ سلاسل کیا جا رہا ھے جو یہ واضح فکر رکھتے ھیں کہ حقوق کبھی بھی ریاستی وفاداریوں کے ثبوت دیکر نہیں بلکہ ریاست اور اس کے ادارٶں کے ساتھ ایک نہ قابلِ مصالحت لڑاٸی لڑ کر ہی حاصل کیے جا سکتے ھیں۔ریاست کی وفاداری کا مطلب تو یہی ھے کہ ریاست کی عوام دشمن پالیسیوں کو تسلیم کیا جاۓ ۔حقوق منوانے کے لیے ریاست کو چیلنج کیا جاتا ھے اور عوامی ایکشن کمیٹی میں اس طرح کا بے باک کردار احسان ایڈوکیٹ کی صورت میں موجود ھے۔ احسان ایڈوکیٹ بابا جان اور دیگر ساتھیوں کے خلاف گرفتاریوں اور مقدمات کے ذریعے گلگت بلتستان کی عوامی تحریک سے ترقی پسندی اور باہیں بازٶ کے عنصر کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ھے۔ گلگت بلتستان کے عوام کے لیے جہاں یہ تحریک ٹیکسوں کے نفاذ کے خاتمے کے لیے اہم ھے۔وہیں پر قیادت کو پرکھنے کے لیے بھی یہ تحریک ایک غیر معمولی حثیت رکھتی ھے۔گلگت بلتستان کے عوام کو مفاد پرست اور موقع پرست قیادت کو تحریک سے باہر کرنا ھو گا۔اور اپنے اندر سے نڈر۔بیباک اور سیاسی طور پر ایڈوانس قیادت کا انتخاب کرنا ھو گا۔احسان ایڈوکیٹ کو ایک ایسے وقت میں گرفتار کیا گیا ھے جب ریاست کی جانب سے شاہراہِ قراقرم کے اردگرد بسنے والی آبادیوں کی جانچ پڑتال کے نام پر کواہف جمع کیے جارہے ھیں۔اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ھے کے سی پیک روٹ کے 460 کلو میٹر پر آباد تقریبأ چار لاکھ آبادی کو منتقل کرنے کی پالیسی کا آغاز کیا جا رہا ھے۔جس کی وجہ سے عوام ۔میں ایک بڑی بے چینی پھیل گٸی ھے جو کسی بھی وقت تحریک کی صورت میں پھٹ کر سامنے آ سکتی ھے۔اسی متوقع صورتحال کے پیشِ نظر احسان ایڈوکیٹ کو قبل از وقت گرفتار کیا گیا ھے۔لیکن گماشتہ حکمران ریاستی جبر و تشدد کے ان اقدامات سے گلگت بلتستان کے عوام کی جدوجہد اور تحریک کو تاراج نہیں کر سکتے۔البتہ احسان ایڈوکیٹ کی گرفتاری عوامی ایکشن کمیٹی کے لیے ایک چیلنج ھے کہ ایکشن کمیٹی احسان ایڈوکیٹ کی رہاٸی کے لیے کس حد تک احتجاج منظم کرتی ھے اور ری