آپ کو خبر ہے کہ میں اہل حدیث سیاست سے حوالے سے اپنی وال پر شاذ ہی کچھ لکھتا ہوں – لیکن آج کچھ خاص ہے ، کیونکہ مرکزی جمعیت اہل حدیث اور جمعیت اہل حدیث کا اتحاد ہو گیا ہے –
آج ایک پریس کانفرنس میں محترم ساجد میر صاحب اور حافظ ابتسام الہی ظہیر صاحب نے ساتھ چلنے کا اعلان کر دیا – اس اعلان کی خاص بات حافظ ابتسام صاحب کی طرف سے وسعت ظرفی کی انتہا کو چھوتا ہوا اعلان تھا – انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی عہدے کے بغیر یہ صلح کر رہا ہوں ، محض اللہ کی رضا کے لیے اور اس کے دین کی سربلندی کے واسطے –
اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر پروفیسر ساجد میر صاحب نے جو گفتگو کی اس نے ماحول کو جذباتی سا کر دیا – آپ نے حافظ ابتسام صاحب اور ان کے بھائیوں کے لیے بہت زیادہ محبت بھری گفتگو کی – بلا شبہ انہوں نے دل کھول کے رکھ دیا – اور یہ بھی کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا –
اس کے جواب میں حافظ ہشام الہی ظہیر نے بھی ویسی ہی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا اور ماحول کو بھی گرما دیا –
حافظ ابتسام الہی ظہیر نے جمعیت اہل حدیث کا ادغام مرکزی جمعیت میں کرنے کا اعلان کیا ، کوئی عہدہ نہ لینے کا اعلان کیا ، اور اس امر کا بھی اعلان کیا کہ اس کے بعد بھی وہ جماعت کے لیے ہر دم حاضر رہیں گے –
اس صلح میں مرکزی کردار جن بزرگوں نے ادا کیا ان کے لیے تحسین – مولانا ارشاد الحق اثری ، حافظ محمد شریف فیصل آباد ، حافظ مسعود عالم اور قاری صہیب احمد میر محمدی نے اس کے لیے کتنے ہی سفر کیے -اور رکاوٹیں دور کیں –
کچھ دوست پس پردہ بھی برؤے کار رہے ، اور سچی بات ہے کہ انہوں نے اس کے لیے بہت محنت سے کام لیا اور اس کا کریڈٹ ان کا حق تھا ، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کا نام لینا مناسب نہیں ہوتا – گو خیر کا کام تھا لیکن مصلحت عزیز تر ہے –
میں نے دیکھا کہ وہاں موجود ہر شخص کا چہرہ جذبات سے دمک رہا تھا –
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اس رحمت بھری گھڑی کو ہماری جماعت کے لیے مستقل کر دے – آئندہ کبھی بھی دلوں میں دوری نہ آئے –
ابوبکر قدوسی