آج کا کالم زندہ ضمیر لوگوں کے لیے هے نواز شریف جنهوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے طرز کی بنیاد رکھنے کے لئے اس شہر لاهور کا انتخاب کرتے هوے اقبال پارک کا انتخاب کرتے ہوئے اس کے سامنے کھڑے ہو کر مبینہ طور پر اس کھیل کا آغاز کیا گیا جو شیخ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان سے شروع کیا تھا اور یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ اقبال پارک هی هے جہاں قرارداد پاکستان منظور هوئ لاهور کی ریلی کے ایک دن کے وقفے کے بعد مزار اقبال پر کھڑے ہو کر سانحہ مشرقی پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے نہ جانے کس کو خصوصی پیغام دیتے ہوئے کہنا کہ اس وقت بهی عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا گیا تھا آج بھی احترام نہیں کیا جا رہا. حضور آپ هی کے نامزد کئے گئے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم منتخب کرایا اور کسی کو تو نہیں جناب اسی مینڈیٹ سے وہ لوگ آپ نے منتخب کئے جو صبح شام ملکی سلامتی اور اس کے اداروں کی تضحیک کرتے ہیں شک هو رها هے کہ بلی تھیلے سے باہر نکل رهی هے جس نے ان کی سرپرستی کی هوئ هے اور جس نے هندوستان اور بنگلہ دیش سے خصوصی طور پر بلائے گئے دانشوروں اور صحافیوں سے لاهور هوٹل میں خطاب کرتے ہوئے دو قومی نظریے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ میرا اور آپ کا رب ایک هے هم ایک ہی طرح کھاتے پیتے اور پہنتے ہیں هم بهی آلو گوشت کھاتے ہیں اور آپ بهی آلو گوشت کھاتے هو جناب میاں صاحب آپ کے زیر سایہ چلنے والی کسی ایجنسی نے کبھی آپ کو یہ رپورٹ نہیں دی کی هندوستان میں گوشت کا نام لینے والوں کی کھال کھنچ لی جاتی ہے کیا انهوں نے آپ کو یہ بھی نہیں بتایا کہ جس کے منہ سے گوشت کی بدبو آتی ہے اس پر تشدد کیا جاتا هے اسے اسی گائے کا گوبر کهلایا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ آپ کی دوستی مودی سے هے آپ مودی کے حلف وفاداری پہ گئے پوری حریت قیادت آپ سے ملنے کی منتظر رهی لیکن آپ اپنے دوست کی دوستی میں پاکستانی پرچم کو بھول گئے آپ کشمیر کے شهداء کو بھول گئے آپ اس خون کو بھول گئے جو بهتا بهی هے پاکستان کی طرف اور اس بہتے دریا کو بهی بھول گئے جو سیراب پاکستان کو کرتا ہے آپ کشمیر کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو بھول گئے آپ نے مودی کی ماں کو شال اور آم بھجوائے لیکن أن ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں کی شکستہ اور پارہ پارہ عصمتوں کو بھول گئے
1971 کا اشارہ دے کر آپ نے ظاہر کر دیا کہ آپ کے اندر کوئ بڑا منصوبہ پنپ رها هے اور آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر اقتدار میرے یا میرے خاندان کے پاس نہ رہا تو میں یہ پاکستان نہیں مانوں گا سیاست اور انقلاب کے نام پر ریاست سے بغاوت کے لیے بہت آہستہ آہستہ چالیں چلنی پڑتی ہیں اگر شیخ مجیب الرحمٰن کو دیکھنے کے لیے مطالعہ کریں تو سب سے پہلے اس نے جو جملے استعمال کئے تهے وہ وہ بنجابی طاقت اور تسلط کا نام تها اس کے حواریوں نے بنجابی اور پختون فورس کا نام لے کر پاکستان کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا تها جیسے بعض موجودہ سیاستدان میڈیا کو بطور هتیہار استعمال کر کے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پانامہ کیس دراصل ادارے لائے ہیں پاکستان ترقی سے نہیں رک سکتا لوگ محب وطن ہیں آپ کے دائیں طرف کھڑے وزیراعظم آزاد کشمیر کو خاص طور پر اس لیے استعمال کیا کہ فاروق حیدر نے نواز شریف کو نا اہل کئے جانے پر اپنی ذہنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں عمران خان کے پاکستان کو نہیں مانتا اور پاکستان کے ساتھ رشتے کو کچے دھاگے سے تشبیہ دی
پاکستان تو ایک ہی ہے چاہے نواز شریف کا هو بلاول بھٹو کا هو شیخ رشید کا هو مولانا فضل الرحمن کا هو سراج الحق کا هو فاروق ستار کا هو یا مصطفی کمال کا هو
کل کو هر سیاسی جماعت کسی دوسرے لیڈر کا نام لے کر یہ کہنا شروع کر دے گا کہ وہ اس کے پاکستان کو نہیں مانتا اس طرح 1971 کا سانحہ هو سکتا ہے شاید یہ وہی الفاظ تهے جو اسلام آباد سے لاهور تک ادا کرنے کے لیے اور لوگوں سے وعدہ لینے کے لیے کہے گئے آپ پہلے جمهوری حاکم ہیں جنهوں نے آمریت کے بعد سب سے زیادہ حکومت کی آپ چلے گئے لیکن آپ کے منتخب نمائندے موجود ہیں آپ اداروں کے خلاف زہر گھول رهے هیں آپ هی کا وزیر اعظم آپ هی کا حکم اور آنندہ بهی آپ کا حکم چلے گا شکوہ نہ کریں شکر ادا کریں پاکستان کی سر زمین ابھی اتنی بانجھ نہیں هوئ کہ آپ کے جانے سے قحط الرجال هو جاے گا آپ نے ملک کو لوٹا اور اس انجام آپ کی دو نا اهلیوں کی صورت میں مل گیا آپ کو اسی دن نااہل هو جانا چاہئے تھا جس دن آپ پہلی بار وزیراعظم بنے تهے ملک قرضوں کے بوجھ سے نکل جاتا آپ نے ان پانچ سالوں میں جتنا قرضہ لیا اتنا پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں لیا افسوس ہے ایک مخصوص سوچ پہ جو دیدہ دانستہ پاکستان کو قرضوں سے آزاد نہیں هونے دیتی جاگو أهل وطن کہ سحر هونے کو هے ظلم کا سورج دوبنے کو هے پاکستان هماری جان پاکستان زندہ باد